غوروفِکر
خالقِ کائنات کی آدم زاد پر بے شمار نوازشات ہیں۔ جس میں غوروفکر کی صلاحیت اِنتہائی اہم ہے۔ یہ صلاحیت آدم زاد کو دیگر مخلوقات سے مُمتاز رکھتی ہے۔
اِرادَتاََ توجہ مرکوز کرکے غوروفکر کرنا۔
باطن میں غوطہ زَن ہو کر حکمت کے موتی تلاش کرنا۔
وسیع وعریض کائنات کے مختلف پہلوؤں پر غور کرنا۔
مَخفی گوشوں کا تجسس اور خُود اپنے آپ پر تفکر نِت نئے زاویہء فکر روشن کرتا ہے۔
زندگی ؟
ہرروز بیشمار اَنواع ، رنگ بَرنگ اِجسام اور نوعِ آدم کے ننھے ننھے پُھول جلوہ اَفروز ہو رہے ہیں۔
جس طرح سِلسلہء نزول جاری ہے۔ اُسی طرح صعود کا عمل بھی ہو رہا ہے۔ کوئی چاہے یا نہ چاہے اُسے عالمِ شہود چھوڑ کر بِاالآخر عالمِ غیب میں مُنتقل ہونا ہی ہے۔ ایک مثال بھی ایسی نہیں کہ کوئی فرد اِس سے محفوظ رہے۔
نُورانی دنیا
آدم زاد سے پُوچھا نہیں جاتا کہ اُسے کس رنگ ونسل، کس مُلک، کس جِنس میں پیدا ہونا ہے؟ اُس کا نام بھی والدین رکھتے ہیں۔ اُسی نام سے اپنی جانب مُتوجہ کرتے ہیں۔ اِبتدائی عمر میں بچے کی توجہ زیادہ تر عالمِ غیب یا باطن میں مشغول رہتی ہے۔
شعور
جیسے جیسے بچے کا شعور عالمِ شہود سے مانوس ہونے لگتا ہے بچے کی توجہ عالمِ غیب یا باطن میں کم ہوتی جاتی ہے۔ بچہ ماحول اور اَشیاء کو جاننے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔ جاننے کی یہ جُستجو یعنی علم کا حصول ماں کی گود سے شروع ہو جاتا ہے۔ اور تاحیات جاری رہتا ہے۔ یہ مَمی ہے ، وہ پاپا ہیں ، یہ مَم ہے ، وہ چندا ماما ہے۔ اِسی طرح وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بچے کا شعور پروان چڑھتا ہے۔