شِفاءِ رَنگ و نُور (حصہ دوئم)


 
ظُلمت اور مَغفرت

کوئی سنجیدہ فرد یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ وہ گُمان کرنے اور کسب کرنے کے حوالے سے اِصلاح کرتے کرتے مکمل اِنسان بن گیا ہے۔ اور اِصلاح کی گنجائش اَب اُس میں ختم ہو گئی ہے۔

کیونکہ غیر مناسب گمان کر لینا، جانے انجانے میں غیر مناسب کسب کا سرزد ہو جانا گو کہ اپنے اوپر ظلم ہے۔ مگر یہ ظلم ہم سے ہوتا رہتا ہے۔ اِس لئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ظلمت زندگی کا وہ جُز ہے۔ جسے کم سے کم کرنے کیلئے مُسلسل اِصلاح کرنا پڑتی ہے۔ اکثر امراض و مسائل کا سامنا ہمیں اِسی ظلم کی پاداش میں ہوتا ہے۔ جس سے نجات کیلئے مادّی کوششوں کے ساتھ ساتھ مغفرت اور غیبی مدد درکار ہوتی ہے۔

حرکت

حرکی تناظر میں دیکھیں تو انسان روزِ اَول سے غیبی مدد کیلئے زبانی حرکت کا استعمال کرتا آیا ہے۔ جیسے جیسے علم کی اِرتقائی منزلیں طے ہوتی گئیں۔ قلمی حرکت بھی غیبی قُوت سے اِستفادے کیلئے استعمال ہونے لگی۔ اور صاحبِ علم و ہُنر نے ہر دور میں تفکر و تجربات سے قلمی حرکت کے کئی طریقے روشناس کروائے۔ جس میں حُروفِ تہجّی کی حرکات کو مُجتمع کرکے خاکے تیار کرنا، علم الاعداد کی روشنی میں الفاظ کی قیمت اَخذ کرکے نقوش تشکیل دینا اور خلاء میں سَیَّاروں کی مختلف ترتیبات کے اوقات میں مطلوبہ شبیہ کی اَلواح تیار کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن آج بھی اِس خاص شعبے میں زبانی حرکت کا استعمال عوام الناس میں مشہور و مقبول ہے۔

زبانی حرکت اور روشنی کا ہَیُّولیٰ

الفاظ بظاہر مَعنوی علامات ہیں۔ لیکن اِن کے باطن میں مَفہومی روشنیاں موجزن ہوتی ہیں۔ الفاظ کی ادائیگی جب زبان سے کی جاتی ہے۔ تو زبانی حرکت سے ماحول میں پیدا ہونے والی اِرتعاش اُن روشنیوں کو تحریک دیتی ہے۔ باالیقین بارہا تکرار سے کثرتِ اِرتعاش روشنی کا ہَیُّولیٰ بن کر احساس کو چھُونے لگتا ہے۔ یہ ماورائی تحریک ذہنی پروگرام کو مَظہر بننے میں  مدد کرتی ہے۔

اگر زبانی حرکت کا مقصد صرف تصوراتی خدوخال میں ہَیُّولیٰ کا ہی اِنتظار ہو۔ تو باالآخر شعور اِحساس کو محسوس کرنے لگتا ہے۔ اور ماورائی وارِدات شروع ہو جاتی ہیں۔

پاکیزہ اَلفاظ اور غیبی مَدد

اَکثر الفاظ انسانی اِختراع ہیں۔ لیکن اِنسان کے پاس اللہ کے الفاظ بھی ہیں۔ جو اللہ نے اپنے محبوب رسولِ اَمین خاتم النبینﷺ کے قلبِ اَطہر پر نازل فرمائے۔ یہ پاکیزہ الفاظ اپنے باطن میں تجلیاتِ اِلہٰی کے لا متناہی سمندر رکھتے ہیں۔

نِیتّ کی پاکیزگی کے ساتھ جب یہ پاکیزہ الفاظ زبان سے ادا ہوتے ہیں۔ تو ادائیگی سے ہونے والی اِرتعاش ماحول کو چیرتی ہوئی عالمِ غیب میں گونج پیدا کرتی ہے۔ اِن کی مَعمولی تکرار ہی بحرِ رَنگ و نُور میں تلاطُم پیدا کر دیتی ہے۔ اور اللہ کی قدرت سے قطار در قطار مَلائکہ تِلاوَتّ کرنے والے کے گمان کی مُناسبت سے اُسکی خدمت پر مَعمور ہو جاتے ہیں۔

اَسماء کا عِلم

اَسماء اِسم کی جمع ہے۔ اِسم یا نام کسی شخص، حیوانات، جگہ یا کسی بھی شئے کی پہچان ہوتے ہیں۔ ہمارے والدین ہمیں اِبتدائی اَیّام میں اَشیاء کے نام سکھاتے ہیں۔ پھر رفتہ رفتہ ہم اَشیاء کے خواص سے واقف ہوتے جاتے ہیں۔ کائنات صِفاتِ اِلہٰیہ کا مَظہر ہے۔ اللہ کی صِفاتی پہچان بھی اُن کے اِسم یا نام سے ہوتی ہے۔ اللہ نے اپنے صِفاتی نام اَسماءُ الحُسنیٰ کہہ کر مُتعارف کروائے ہیں۔ اللہ نے ہمارے اَبّا حضور آدمؑ کو مکمل اَسماء کا علم سکھایا۔ قرانِ حکیم میں بھی جا بجا مختلف کائناتی اُمور میں مختلف صِفاتِ اِلہیٰہ کا تذکرہ ملتا ہے۔

اِنسان زمانہ قدیم سے غیب کے مُختلف تصورات لئے اُن کے مُختلف نام اِختراع کرکے اُنھیں غیبی مدد کیلئے پکارتا آیا ہے۔ مُسلم ہونے کے ناطے غیبی مدد کیلئے ہمیں صرف اللہ کو اُس کے صِفاتی ناموں سے پکارنا چاہیئے۔

علم و ہُنر کے حصول میں غیبی مدد کا وظیفہ

علم و ہُنر کے حصول کا مقصد معلومات میں اِضافے کے ساتھ ساتھ طالبِ علم میں تخلیقی صلاحیتیں بیدار کرنا ہوتا ہے۔ تاکہ وہ شخصی تعمیر کرکے اپنے مُنفرد کردار میں اپنا، والدین کا اور ملک و قوم کا نام روشن کرسکے۔ تخلیقی صلاحیتیں بیدار کرنے میں غیبی مدد کیلئے
ہر کام کی اِبتداء میں اَدب سے بِسم اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم پڑھیں۔ اور اپنے پکارے جانے والے نام کے اعداد کے مُطابق روزانہ بعد نمازِ فجر (خواہ فجر کی نماز قضاء ادا کرنی پڑے)  یَا اَللہُ رَحمٰنُ الرَّحِیم  یَا اَللہُ فَتّاحُ العَلیم  پُکاریں۔

کم اَز کم سو دِن کے عمل سے طبعیت میں غیر معمولی فائدہ محسوس ہونے لگے۔ تو اور لوگوں سے بھی شِئر کریں۔



Post a Comment

If you have any question let me know

Previous Post Next Post