جَمیلہ پَری (پہلی قسط)

جَمیلہ پَری

رُوحانی دُنیا کے رُکن حضرت صاحب کی۔۔۔۔۔ لے پالک حسین و جمیل دوشیزہ۔۔۔۔۔ جمیلہ۔۔۔۔۔ کیوںکر جِنَّات کی آلہء کار بن کر۔۔۔۔۔ دیگر نظامِ  شَمسی میں۔۔۔۔۔ خلائی مخلوق سے۔۔۔۔۔ روابط بَناتی ہے؟ ۔۔۔۔۔    مُذَکَّر و مُونَّث کے مابین کَشِش کے طِلسماتی پہلوؤں کے ساتھ شیطانی مَکّاریوں اور رُوحانی بُزرگوں کی۔۔۔۔۔ خاموش تدبیروں  میں۔۔۔۔۔ خیر و شَر کی دلچسپ کشمکش لئے  مُنفرد کہانی۔۔۔۔۔ جمیلہ پَری

قبائلی تصادم میں خاندان کے خاندان اللہ کو پیارے ہو گئے۔ جمیلہ گیارہ سال کی عمر میں اپنی آنکھوں سے یہ ہولناک مَناظر دیکھتے ہوئے تنہا رہ گئی تھی۔ خُدا ترس لوگ حَتیُ الِامکان جمیلہ کا خیال رکھتے۔ لیکن کئی ماہ کے ڈاکٹری علاج اور دیگر تدبیروں کے باوجود جمیلہ معتدل زندگی کی طرف نہ لوٹ سکی۔ گھُٹ گھُٹ کر روتے رہنا یا گُم سُم بیٹھے بیٹھے صبح سے شام کر دینا جمیلہ کا مَعمول تھا۔ کِسی نے بتایا کہ کئی میل دُور ایک گاؤں میں عُمر رَسیدہ خاتون اَکیلی رہتی ہیں۔ جو صوم و صلاۃ کی پابند ہیں۔ کئی لاعلاج مَریض اُن کے رُوحانی علاج سے فیضیاب ہو چُکے ہیں۔ وہاں کے لوگ اُنھیں عقیدت سے نانی اَماں کے نام سے بُلاتے ہیں۔ کیوں نہ جمیلہ کو نانی اَماں کے پاس لے جایا جائے۔ پھر ایک دن لا وارث جمیلہ کو کچھ لوگ نانی اَماں کے پاس لے گئے۔

نانی اَماں نے جمیلہ کے حالات و کیفیات تفصیل سے جاننے کے بعد جمیلہ کو اپنے سامنے دو زانو بِٹھا کر دونوں ہاتھ جمیلہ کے سر پر رکھ کر سورۃ ق کی تلاوت فرمائی۔

پھر نانی اَماں جمیلہ سے مُخاطب ہوئیں:۔  بیٹی خیر وشَر کائنات کے بُنیادی کردار ہیں۔۔۔ خیر و شَر کی باہمی کشمکش سے یہ دنیا رواں دواں ہے۔۔۔ ہر شئے اپنا اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔۔۔ لہذا تمھیں بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔۔۔ تمھاری طرح میرا خاندان بھی اللہ کو پیارا ہو چکا ہے۔ اگر تم چاہو تو آج سے میرے ساتھ رہو۔ اور اپنی نئی زندگی کا آغاز کرو۔ میں نمازِ عصر ادا کر لُوں پھر ملتے ہیں۔

جمیلہ حَسبِ مَعمول گُم سُم بیٹھی تھی۔ جیسے کہ اُس نے کچھ سُنا ہی نہ ہو۔

نانی اَماں یہ کہہ کر دوسرے کمرے میں چلی گئیں۔ سب لوگ نانی اَماں کی غیر مُتوقع پیشکش سے خاصا حیران ہوئے اور آپس میں چہ مہ گوئیاں کرنے لگے۔ جمیلہ کو بھی لوگوں نے مُخاطب کرنے کی کوشش کی۔۔۔ لیکن جمیلہ غیر حاضری کی تصویر بنی۔۔۔ خاموش بیٹھی رہی۔ نانی اَماں نماز ادا کر کے آ گئیں۔ اور ساتھ کھجوروں سے بنا شربت لے کر آئیں سب نے شربت نوش کیا۔

نانی اَماں بڑے پیار سے جمیلہ سے مُخاطب ہوئیں:۔  جمیلہ میری باتیں یاد ہیں؟

جمیلہ غیر مُتوقع انداز میں بولی:۔  نانی اَماں آپ کی باتیں حرف بہ حرف میرے ذہن پر نقش ہو گئیں ہیں۔

نانی اَماں نے کہا:۔  ماشاء اللہ میری بچی تو اللہ کے کرم سے باالکل ٹھیک ہو گئی ہے۔ پھر کیا سوچا میری بَچی نے؟

جمیلہ نے نانی اَماں کی پیشکش قبول کر لی۔ جمیلہ کا اس طرح خُود کو اچانک ایک اَجنبی خاتون کے سپرد کر دینا کسی کی سمجھ میں نہ آیا۔ بہر حال جمیلہ نے اپنے خاندان کو کھونے کے بعد نانی اَماں کے ساتھ اپنی نئی زندگی کا آغاز کر دیا۔

نانی اَماں اپنے رُوحانی اِمام حضرت صاحب کو اپنے ہر قدم سے آگاہ رکھتی تھیں۔ اُنھوں نے فوراً حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر جمیلہ کا غائبانہ تعارف کروا دیا۔

حضرت صاحب نے فرمایا:۔  اللہ آپ کو اجرِ عظیم عطا فرمائے۔۔۔ نانی اَماں آپ نے بے سہارہ بچی کو سہارہ دیکر بہت اچھا کیا ہے۔۔۔ اَب میری نصیحت ہے۔۔۔ کہ جمیلہ آج سے میری بیٹی ہے۔۔۔ آپ اُس کی تعلیم و تربیت آرام و آسائش اَلغرض ہر شئے کا خاص اہتمام کریں گی۔۔۔ جمیلہ آپ کی صحبت میں پروان چڑھ کر۔۔۔ اللہ کے ٖفضل سے یقیناً بڑا کام کرے گی۔

نانی اَماں اَدب سے رُخصت چاہتے ہوئے کہتی ہیں:۔ میں سمجھ گئی حضرت صاحب۔۔۔ جمیلہ میرے پاس آپ کی اَمانت ہے۔۔۔ میں انشاء اللہ خُود سے زیادہ جمیلہ کا خیال رکھوں گی۔

نانی اَماں کے پاس رُوحانی علاج کے سِلسلے میں لوگوں کا آنا جانا رہتا تھا۔ جمیلہ حصولِ تعلیم کے ساتھ ساتھ اِس خاص ماحولی تربیت سے مانوس ہوتے ہوئے جوان ہو گئی۔۔۔۔ نانی اماں جمیلہ کو اپنی طرح بنانے کے لئے۔۔ اکثر و بیشتر نصیحتیں فرمایا کرتی تھیں۔۔۔ لیکن جمیلہ حَسبِ مَعمول بہت کم ہی نصیحت قبول کرتی تھی۔

ایک دن چند خواتین۔۔۔ نانی اَماں سے دَم  کروانے آئی ہوئی تھیں۔۔۔ جمیلہ چھت پر تھی۔ نانی اَماں نے جمیلہ کو چھت سے بُلوایا۔۔۔ کہ مغرب ہونے والی ہے چائے بنا لے۔۔۔ جمیلہ چھت سے نیچے آئی۔۔۔ تو نانی اَماں دیکھ کر پریشان ہو گئیں۔۔۔ جمیلہ شدید بخار میں مُبتلا تھی۔ اور سردی سے کانپ رہی تھی۔

نانی اماں نے کہا:۔  بیٹی تم تو بالکل ہَشاش بَشاش چھت پر گئی تھیں۔ اَچانک بُخار کیسے ہوگیا۔ یہ کہتے ہوئے نانی اَماں نے اپنی دیسی تدبیروں کے ساتھ ساتھ ۔۔۔دَم کیا اور دعا بھی کی۔۔۔ تب کہیں جا کر جمیلہ کی طبیعت بہتر ہونے لگی۔

پھر نانی اَماں کی نصیحتیں شروع ہو گئیں:۔  کتنی بار کہا ہے۔۔۔ کہ تیز خوشبو لگی ہو۔۔۔ تو کھُلے بال لے کر۔۔۔ شام کے وقت۔۔۔ چھت پر مَت جایا کرو۔۔۔ لیکن تم مانتی نہیں ہو۔۔۔ پھر نانی اَماں جمیلہ کو گلے لگا کر پیار کرتے ہوئے کہتی ہیں۔۔۔ اَب بتاؤ کیا ہوا تھا چھت پر؟

جمیلہ نے کہا:۔  نانی اَماں میں کافی عرصے سے چھت پر کبھی کبھی اپنے پیچھے سائے کو محسوس کرتی ہوں۔

نانی اَماں فوراً بولیں:۔  اَرے میری بَچی تمہیں تو پہلے دن ہی مجھے بتانا چاہیے تھا۔

جمیلہ نے کہا:۔  نانی اَماں آپ کو معلوم ہے کہ میں ایسی چیزوں سے بالکل نہیں ڈرتی۔۔۔ مجھے تو جب بھی سایہ محسوس ہوا۔۔۔ میں نے اُسے مُخاطب کرکے کہا۔۔۔ کہ مُجھ سے ڈرو نہیں۔۔۔ میرے سامنے آؤ۔۔۔ لیکن سامنا کرنے کی شاید اُس میں ہمت نہیں ہے۔

دَم کروانے آنے والی خواتین میں۔۔۔ ایک لڑکی سلمیٰ تھی۔ سلمیٰ نے تفتیشی انداز میں جمیلہ سے پوچھا:۔  کہ وہ مرد ہے یا عورت؟

جمیلہ نے کہا:۔  آج پہلی بار وہ سایہ میرے پیچھے اتنا قریب تھا جس سے محسوس ہوا کہ وہ مرد ہے۔

نانی اَماں نے فوراً کہا:۔  تمہیں آیت الکرسی پڑھنا چاہیےتھی۔

جمیلہ نے کہا:۔   نانی اَماں۔۔۔۔۔۔ وہ خبیث ڈرپوک۔۔۔ اچانک میرے پیچھے آ لگا۔۔۔ اِس لئے میں حواس پر قابو نہ رَکھ سَکی۔۔۔ سامنے آتا تو میرے غیض و غضب سے بچنے کے لئے۔۔۔ اُسے آیت الکرسی پڑھنا پڑتی۔

نانی اَماں آسمان کی طرف نگاہ اُٹھا کر گہرا سانس لیتے ہوئے کہتی ہیں:۔  ضَطیش صَدی شروع ہونے والی ہے۔ نِت نئے شیطانی منصوبے سامنے آئیں گے۔

جمیلہ نے پوچھا:۔  نانی اَماں یہ ضَطیش صَدی کیا ہے؟

نانی اَماں نے کہا:۔  صاحبِ عِلم بتاتے ہیں۔ کہ اِس صَدی میں ایسی شیطانیاں سامنے آئیں گی۔ جو نہ کبھی کسی نے دیکھی ہونگی۔۔۔ نہ سُنی ہونگی۔ میری دعا ہے کہ تم خیر و شر کی اِس جنگ میں کوئی اہم کام کرکے اپنی نانی اَماں کی تربیت کا نام روشن کرو۔۔۔ تاکہ میں حضرت صاحب کے سامنے سُرخُرو ہو سکوں۔

تمام خواتین بھی توجہ سے یہ باتیں سُن رہی تھیں۔ سلمیٰ نے کہا:۔  نانی اَماں کیا اِس جنگ میں کوئی  کردار ہم بھی ادا کر سکتے ہیں؟

نانی اَماں نے کہا:۔  کیوں نہیں۔۔۔ اِس کے لیے تمہیں خُلوصِ نیت سے۔۔۔ ذہنی طور پر خُود کو تیار کرنا ہوگا۔ پھر رُوحانی دنیا کے بُزرگ۔۔۔ اِخلاص کی مُناسبت سے۔۔۔ تمہیں بھی چُن لیں گے۔ اَب میری مغرب کی نماز کا وقت نکلا جارہا ہے۔ تم آئندہ جب بھی آؤ تو مجھے یاد  دِلانا۔۔۔ تا کہ میں تمہاری رُوحانی تربیت پر توجہ دے سکوں۔

خواتین نے اجازت چاہی۔۔۔۔ اور نانی اَماں نے نماز کے لئے جاتے ہوئے جمیلہ سے کہا:۔  کہ تم اَبھی آرام کرو رات کو میرے پاس آنا۔۔۔ آج نو چندی جمعرات ہے۔۔۔ تمہیں آج سے ایک اہم کام شروع کرنا ہے۔

جمیلہ رات سونے سے پہلے نانی اَماں کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ نانی اَماں نے ایک پرچہ دیتے ہوئے کہا:۔  اِس پرچے میں وظیفہ لکھا ہے۔ آج سے رات سوتے وقت تم یہ پڑھ لیا کرو۔۔۔ اور خواب یا بیداری میں کچھ بھی نظر آئے مجھے بتایا کرو۔۔۔ تاکہ میں تمہاری رہنمائی کر سکوں۔

جمیلہ نے نانی اَماں کی بات پر عمل تو شروع کر دیا۔ لیکن جان بوجھ کر وظیفہ الٹا پڑھا کرتی تھی۔ ساتویں دن جمیلہ نے خواب دیکھا کہ:۔  وہ ایک بہت بڑے شیشے کے گلوب میں بند ہے۔ گلوب کے باہر اوپر کی جانب ایک نارنجی رنگ کا انسانی ہَیُولیٰ جِس کے ہاتھ پاؤں غیر واضح ہیں۔ جمیلہ کی طرف دیکھ رہا ہے۔

جمیلہ نانی اَماں سے خواب کا تذکرہ نہیں کرتی۔ پھر سات دن کے بعد جمیلہ خواب دیکھتی ہے کہ:۔  زمین ایک بہت بڑے شیشے کے گلوب میں بند ہے۔۔۔ اور جمیلہ خُود کو گلوب کے باہر دیکھتی ہے۔ جمیلہ اپنے اوپر ایک نارنجی رنگ کے ہَیُّولے کی طرح لباس محسوس کرتی ہے۔ جمیلہ سوچتی ہے کہ۔۔۔۔ میں کہیں ہَیُّولیٰ تو نہیں بَن گئی؟  پھر اپنے ہاتھ پاؤں دیکھ کر خُوش ہو جاتی ہے کہ میرے ہاتھ پاؤں تو  بالکل واضح ہیں۔ اور میں اُس گلوب سے باہر آگئی ہوں جِس گلوب میں دنیا بند ہے۔ 

جمیلہ اپنے دوسرے خواب کے بارے میں بھی نانی اَماں سے کوئی ذکر نہیں کرتی۔
جمیلہ اَب اکثر چھت پر کھڑی۔۔۔ رُوحانی علاج کیلئے آنے والی خواتین کے ساتھ۔۔۔ اُن سیاہ ہَیُّولوں کو دیکھ لیتی تھی۔ جو اُن خواتین کی کسی نہ کسی طرح پریشانی کا باعث بنے ہوتے تھے۔ مختلف مَسائل میں گھِری ہوئی خواتین میں جمیلہ کو کِسی خاتون کی ناف پر سیاہ ہَیُّولیٰ دکھائی دیتا۔۔۔ کسی کے کاندھوں پر۔۔۔ کسی کے پیچھے۔ لیکن دَم کروانے کے بعد جب وہ خواتین واپس جاتیں تو وہ ہَیُّولیٰ نہیں ہوتا تھا۔

جمیلہ اِن تمام کیفیات و مُشاہدات کا تذکرہ نانی اَماں سے نہیں کرتی۔۔۔ اِسی طرح مَزید سات دن گزرنے کے بعد  جمیلہ دوپہر سے ہی دِل ہی دِل میں اُدھیڑ بُن شروع کر دیتی ہے۔ کہ آج پھر کوئی غیرمَعمولی خواب نظر آئے گا۔

جمیلہ اِسی سوچ و بچار میں تھی۔ کہ نانی اَماں جمیلہ کو آواز دیتی ہیں۔ اور کہتی ہیں میں کھانے کے لیے پھل اور مشروب کا اہتمام کر رہی ہوں۔ تم جلدی سے گھر صاف کرکے عُود کی دُھونی لگا دو۔ آج پہلی بار ہمارے ہاں حضرت صاحب تشریف لا رہے ہیں۔

جمیلہ اَچھنبے سے پوچھتی ہے:۔  نانی اَماں۔۔۔۔۔۔ وہ حضرت صاحب جو آپ کے رُوحانی اِمام ہیں۔ اور رُوحانی دنیا میں ایک اِہم مقام رکھتے ہیں؟

نانی اَماں کہتی ہیں:۔  ہاں بیٹی یہ ہماری خوش نصیبی ہے۔ کہ وہ ہمارے یہاں جَلوہ افروز ہورہے ہیں۔

جمیلہ جلدی جلدی صفائی سُتھرائی کے بعد اَبھی عُود کی دُھونی لگا ہی رہی ہوتی ہے۔ کہ دیکھتی ہے:۔   دُودِھیا رنگ کے دو ہَیُّولے گھر میں داخل ہو رہے ہیں۔ پیچھے پیچھے ایک جوان آدمی اور اُن کے ساتھ ایک خاتون بھی آ رہی ہیں۔ نانی اَماں جوان آدمی اور خاتون کا اِنتہائی اَدب سے اِستقبال کرتے ہوئے اُنہیں کمرے میں لے جاتی ہیں۔ پھر اُس کے بعد سُرخ رنگ کے دو ہَیُّولے گھرمیں داخل ہو کر دروازے کے دائیں اور بائیں کھڑے ہو جاتے ہیں۔

جمیلہ نانی اَماں کی ہدایت کے مُطابق۔۔۔  وضو کر کے پھل اور مشروب لے کر کمرے میں جاتی ہے۔ اور حضرت صاحب کے سامنے دو زانو ہو کر اَدب سے بیٹھ جاتی ہے۔

نانی اَماں تعارف کرواتی ہیں کہ:۔  حضرت صاحب۔۔۔ یہ جمیلہ ہے۔

حضرت صاحب بایاں ہاتھ اپنے سینے اور دایاں ہاتھ جمیلہ کے سَر پر رَکھ کر ۔۔سُورہ کوثر کی تلاوت فرماتے ہیں۔

پھر حضرت صاحب جمیلہ سے مخاطب ہوتے ہیں:۔  جمیلہ تم میری بیٹی ہو، نانی اَماں تمہارے ہر حال سے مجھے باخبر رکھتی ہیں۔ میں بھی گاہے بگاہے تمہاری خیریت دریافت کرتا رہتا ہوں۔ مجھے خوشی ہوگی کہ تم مُجھے اپنا والد سمجھتے ہوئے مجھ سے اپنی کوئی بات کہو۔ اور اگر نانی اَماں سے کبھی کوئی شکایت ہو تو وہ بھی مُجھ سے کہنا۔

جمیلہ اَدب سے کہتی ہے:۔  حضرت صاحب۔۔۔ نانی اَماں میرا بہت خیال رکھتی ہیں۔۔ پھر بھی کوئی بات ہوئی تو آپ سے ضرور کہوں گی۔

حضرت صاحب کہتے ہیں:۔  جمیلہ ویسے تو جو بھی تمھارے سامنے حاضر ہو۔۔ اُسے تم حضرت کہہ سَکتی ہو۔ لیکن مُجھے بابا، ڈیڈی، پاپا یا اَبو جو تمھیں اچھا لگے وہ کہا کرو۔

پھر حضرت صاحب نانی اَماں سے مُخاطب ہوتے ہیں:۔  آج اِس سیارے کی نئی صَدی شروع ہوگئی ہے۔ اِس صَدی میں شیطان کی گرفت پہلے سے زیادہ ہوگی۔ اِس لئے نِت نئی شیطانیاں سامنے آئیں گی۔

نانی اَماں معلوم کرتی ہیں:۔  حضرت۔۔۔۔۔۔۔۔ اِس صَدی میں شیطان کے نئے مُمکنہ اِقدامات کیا ہوں گے؟

حضرت صاحب تَبسُم فرماتے ہوئے اپنے ساتھ آنے والی خاتون کی طرف مُتوجہ ہوکر کہتے ہیں:۔  نُصرت۔۔۔۔۔۔ شیطان کے مُمکِنہ اِقدام پر آپ کیا کہتی ہیں؟

نُصرت عاجزی و اِنکساری سے لَب کُشائی کرتی ہیں:۔  اِمکان کو وَجوب سے ہی پہچاننا ہوگا۔ اِس کے علاوہ تو حضرت۔۔۔۔۔ آپ ہی جانتے ہیں۔

حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ:۔  د ر اَصل واجب میں ہی اِمکان چھُپا ہے۔ باقی تو اللہ ہی جانتا ہے۔ بندے کی کیا مَجال۔

پھر سب پھل کھاتے ہیں اور مشروب نوش فرماتے ہیں۔ حضرت صاحب نانی اَماں کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں نانی اَماں آپ کی جسمانی حضوری میں ہم بہت لُطف اَندوز ہوئے۔ اللہ آپ سے راضی ہو۔ اَب ہم آپ سے اِجازت چاہیں گے۔

نانی اَماں کہتی ہیں:۔  حضرت یہ میری خوش نصیبی ہے۔ کہ میرے ہاں آپ کی جسمانی حاضری ہوئی۔ میری دعا ہے اللہ حقیقی دنیا میں بھی آپکی جسمانی حضوری نصیب کرے۔ سب کہتے ہیں۔۔ آمین

حضرت صاحب کے جانے کے بعد جمیلہ پوچھتی ہے کہ:۔  نانی اَماں یہ نُصرت کون تھی؟

نانی اَماں بتاتی ہیں:۔  یہ حضرت صاحب کی مَنکُوحہ ہیں۔ اور رُوحانی دنیا میں خاص مقام رکھتی ہیں۔

جمیلہ کو خیال آتا ہے کہ حضرت صاحب کے ساتھ آنے والے ہَیُّولوں کے بارے میں بھی معلوم کروں؟ پھر سوچتی ہے۔ کہ جب بتانا ہوگا۔۔۔۔ نانی اَماں خُود ہی بتا دیں گی۔

پھر جمیلہ آج کی رات کے بارے میں سوچنے لگتی ہے۔ جمیلہ کو یقین تھا کہ آج کوئی غیرمعمولی خواب ضرور آئیگا۔ لیکن رات کو جیسے ہی جمیلہ اپنا وظیفہ پڑھ کر فارغ ہوتی ہے۔ جامنی رنگ کا ہَیُّولیٰ بااَدب اپنے سامنے پاتی ہے۔

جمیلہ یہ دیکھ کر خُوش ہوتی ہے۔ کہ وہ اپنے وظیفے میں کامیابی حاصل کر رہی ہے۔ اور حاکمانہ لہجے میں ہَیُّولے سے مُخاطب ہوتی ہے:۔  تم کون ہو؟

ہَیُّولیٰ کہتا ہے:۔  میں جِن ہوں۔ میرا نام خُلصان ہے۔ میں سرائے لطیف سے آپ کو لینے آیا ہوں۔

جمیلہ پوچھتی ہے:۔   سرائے لطیف کیا ہے؟

خُلصان کہتا ہے:۔   بَحرِ ثلاث پر واقع۔۔ سرائے لطیف۔۔ وسیع و عریض خُوبصورت محل ہے۔ جو کہ اِس سیارے کا فلاحی مرکز ہے۔ 
خُلصان کے ہاتھ پاؤں چُونکہ غیر واضح ہوتے ہیں۔ وہ بائیں بازو سے اِشارہ کرتا ہے۔ تو فرش پر ایک سلیٹی رنگ کی شیٹ نمودار ہو جاتی ہے۔ وہ کہتا ہے:۔ جمیلہ آپ اِس شیٹ پر آجائیں۔۔ ہم ایک منٹ چَھتیس سیکنڈ میں محل پہنچ جائیں گے۔

محل پہنچ کر جمیلہ ایک طرف محل کی خوبصورتی سے مَحظُوظ ہو رہی تھی۔۔۔ تو دوسری طرف مُضطرب ہوکر خُود کلامی بھی کر رہی تھی۔۔۔ کوئی دِکھائی کیوں نہیں دے رہا؟۔۔۔ یہ محل ہے یا ویرانہ؟۔۔۔ اور۔۔۔۔۔۔ اور یہ خُلصان مُجھے یہاں لا کر خُود کہاں مَر گیا؟

اگلے ہی لمحے اُس نے سات سُرخ ہَیُّولوں کو اپنی جانب آتے دیکھا تو مُطمئن ہوئی۔۔۔۔ کہ کوئی تو ہے یہاں پر۔ ساتوں ہَیُّولے جمیلہ کے قریب آکر ایک ساتھ مُخاطب ہوئے:۔ عظیم فلاحی مَرکز سرائے لطیف میں ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔۔۔ آئیے
ساتوں ہَیُّولے آگے چلتے ہیں، جمیلہ اُن کے پیچھے، کسی بھی ہَیُّولے کے ہاتھ پاؤں واضح نہیں ہوتے۔ شیشے کا شفاف محل چُونکہ پانی پر واقع تھا۔ قدموں کے نیچے پانی کی رَوانی دیکھتے ہوئے جمیلہ اَٹھکھیلیاں کرتی ہوئی محل کے اَندرونی حصے میں داخل ہو جاتی ہے۔

محل کا اَندرونی حصہ بھی اپنے اَطراف میں اِتنا وسیع تھا کہ جمیلہ کی نگاہ محل کا اَحاطہ کرنے سے قاصر تھی۔ جمیلہ اپنے اَطراف۔۔۔ ایک وسیع فاصلے کے بعد۔۔۔۔ دُور دُور حَدِ نِگاہ تک۔۔۔۔۔ رَنگ بَرنگ ہَیُّولوں کی ٹولیاں اپنی جانب مُتوجہ دیکھ رہی تھی۔

جمیلہ جیسے جیسے آگے بڑھ رہی تھی۔۔۔۔۔ مَزید ہَیُّولے اُس کی طرف مُتوجہ ہوتے جا رہے تھے۔۔۔۔۔ جمیلہ کی پیش قدمی ماحول پر سَکتہ سَا طاری کر رہی تھی۔ پھر ساتوں ہَیُّولے رُک کر۔۔۔۔ آمنے سامنے لگے دو خوبصورت تخت میں سے۔۔۔۔۔ ایک کی جانب اِشارہ کر کے ایک ساتھ کہتے ہیں:۔  آپ یہاں تشریف رکھیں۔ اور خُود واپس لوٹ جاتے ہیں۔

جمیلہ تخت پر گاؤ تکیہ لگائے چاروں اطراف ماحول کا نظارہ کرتی ہے۔۔۔۔ دیکھتی ہے۔۔۔۔ دائیں جانب وسیع تالاب ہے۔ تالاب میں ایک طرف موتی کی طرح ایک ٹیلہ ہے۔ جس کے اوپر ایک بڑی آبشار سے پانی گر رہا ہے۔۔۔ آبشار کی آواز سَماعت میں رَس کھول رہی تھی۔

اتنے میں ایک نیلے رنگ کا ہَیُّولیٰ۔۔۔۔ اور اُس کے ساتھ دو سُرخ رنگ کے ہَیُّولے۔۔۔۔۔ جمیلہ کی طرف آتے ہیں۔ نیلا ہَیُّولیٰ جمیلہ کو خُوش آمدید کہہ کر سامنے والے تخت پر بیٹھ کر مُخاطب ہوتا ہے:۔  میرا نام جَوار ہے۔۔۔۔ آپ کو سُن کر اِنتہائی خُوشی ہوگی۔۔۔۔۔ کہ قُدرت کے اَرضی مَنصوبے کی فلاح کے لئے ہمارا بورڈ۔۔۔۔۔ آپ کو نئی صَدی کے پروگرام میں۔۔۔۔۔ ایک اہم عہدہ دینا چاہتا ہے۔

جمیلہ کہتی ہے:۔  میں سمجھتی ہوں خُوشی سے زیادہ یہ اعزاز کی بات ہے۔

جَوار کہتا ہے:۔   یقیناً۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔۔ یہ محل اور ہم سب یہاں ایک نظریئے کی وجہ سے ہیں۔ 

لہذا نظریاتی ہم آہنگی کے لیے ہمیں آپس میں بات کرنا ہوگی۔ نظریاتی ہم آہنگی کے بعد ۔۔۔۔۔آپ حَلفِ زخار دیں گی۔ پھر  ایک بورڈ ممبر کی حیثیت سے۔۔۔۔۔ بورڈ میٹنگ کی تیاری کریں گی۔۔۔۔۔ اگر آپ تیار ہیں تو ہم نظریاتی نُکات پر بات شروع کریں۔

جمیلہ کہتی ہے:۔  کیوں نہیں۔۔۔۔۔۔ ایک ایک لمحہ بہت قیمتی ہے۔ ہمیں اِس کی قدر کرنی چاہئے۔

جَوار کہتا ہے:۔   قُدرت کے عظیم اَرضی مَنصوبے کی اِنسان اِہلیت نہیں رکھتا۔

اِنسان کی نا اہلی سے خود  اِنسانیت اور قُدرت کا اَرضی مَنصوبہ دونوں ہلاکت کے قریب ہیں۔

اِنسان اور اَرضی زندگی لازم و مَلزوم ہیں۔ اَرضی مَنصوبے کو ہلاکت سے بچا کر اِنسانیت کو بچایا جا سکتا ہے۔ لہذا قُدرت کے سامنے سُر خُرو ہونے کیلئے فِی الاَرض اِنسانوں اور عَلیَ الاَرض جِنَّات کو مِل کر کام کرنا چاہئے۔

جِن و اِنس کا کوئی فرد یا گروہ۔۔۔۔۔ آگاہ کرنے کے باوجود ہلاکت کی وجہ بنے۔۔ تو اُسے ہلاک کر دینا فرض ہے۔

پھر جَوار مزید کہتا ہے:۔  مُجھے یقین ہے کہ آپ ہمارے نظریئے سے اِتِّفاق کریں گی۔

جمیلہ کہتی ہے:۔   لمحے کی بہت اہمیت ہے۔۔ ایک لمحہ بازی پلٹ دیتا ہے۔۔۔ مُقررہ وقت سے لمحہ پہلے بھی اہلیت کا اَندازہ کس طرح کِیا جاسکتا ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔ اِس کے علاوہ اِس میں کوئی شک نہیں کہ اِس نظریئے کے بغیر ہم آنے والے نئے فِتنوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔

جَوار کہتا ہے:۔  میں سمجھتا ہوں۔۔۔۔۔ یہ جان کر آپ قطعی حیران نہ ہونگی۔۔۔۔۔۔ کہ اِس وقت محل کے علاوہ خَلاء میں بھی ہمارا گِروہ آپ کو نہ صرف دیکھ رہا ہے۔ بلکہ سُن بھی رہا ہے۔ اور آپ کے مُذاکرے نے سب کو مُتاثر کیا ہے۔ اور بورڈ کی مرکزی کابینہ نے مجھے یہ اَلقیٰ کیا ہے۔ کہ اُن سب کی طرف سے میں آپ کو ایک بار پھر خُوش آمدید کہوں۔

یہ کہہ کر جَوار اور دونوں ہَیُّولے واپس لوٹ جاتے ہیں۔

پھر سات گلابی رنگ کے ہَیُّولے آتے ہیں۔ اور جمیلہ کو ایک ساتھ۔۔۔ نِسوانی آواز میں خوش آمدید کہتے ہیں۔

جمیلہ معلوم کرتی ہے:۔ آپ مُونّث ہیں؟ وہ جواب دیتی ہیں:۔ جی ہاں

جمیلہ پھر سوال پوچھتی ہے:۔ کیا گلابی رنگ مُونّث کا ہے؟

وہ کہتی ہیں:۔ جی نہیں !  رنگ صرف آپ دیکھتے ہیں۔ ہماری لہروں میں مُختلف بہاؤ قبائل و درجات کا ہے۔ اور ہر درجے میں مُذکّر و مُونّث دونوں ہیں۔ پھر وہ فوراً پوچھتی ہیں:۔  آپ حَلفِ زَخار کیلئے تیار ہیں؟

جمیلہ کہتی ہے:۔  جی ہاں۔۔۔۔۔ مُجھے بھی جلد اِس مَرحلے گُزر کر میٹنگ کی تیاری کرنی ہے۔

وہ کہتی ہیں:۔  آپ لباس اُتار دیں۔ پھر آبشار کے نیچے چلتے ہیں۔ جمیلہ برہنہ ہو کر اُن کے ساتھ آبشار کی طرف چلتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ:۔  آپ آبشار کے نیچے دونوں ہاتھ سر پر رکھ کر کھڑی ہونگی۔ پھر ہم جو کہیں۔۔۔۔ آپ اُسے سُن کر دُھرائیں گی۔

جمیلہ دونوں ہاتھ سر پر رکھ کر آبشار کے نیچے کھڑی ہو جاتی ہے۔ وہ پہلے نظریاتی نُکات پڑھتی ہیں۔ پھر جمیلہ کا دیا ہوا جواب پڑھتی ہیں۔ پھر جمیلہ کے دیئے ہوئے جواب پر حلف لیتی ہیں ۔ کہ :۔        میں اگر  اپنے دیئے ہوئے جواب سے اعراض کروں ۔تو جس پانی  کے وسیلے سے مجھے زندگی ملی۔ اُسی پانی میں غرق ہو جاؤں۔ جمیلہ بھی اِسی طرح  دھرا دیتی ہے۔

پھر وہ جمیلہ کو مبارک باد دیتے ہوئے بورڈ میٹنگ کی تیاری کیلئے اپنے ساتھ لے جاتی ہیں۔

Post a Comment

If you have any question let me know

Previous Post Next Post