گھُٹن اور اِظہار
اِطہار کرنا وہ اِنسانی روَیّہ ہے جس کے بغیر زندگی بے معنی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اپنی کیفیات، خیالات، مشاہدات اور واقعات کا اِظہار کرکے ہمیں قلبی اِطمنان حاصل ہوتا ہے۔ لیکن صرف اِس خوف سے ہم اپنی بعض کیفیات و خیالات کا اِظہار نہیں کرپاتے کہ لوگ ہمارے بارے میں کوئی منفی رائے قائم نہ کر لیں۔ اِسی لئے اجنبی بن کر اجنبی لوگوں سے چیٹ کرنا معاشرے میں فروغ پا رہا ہے۔ اگر آپ بھی اپنے مَن میں محسوس ہونے والے کرداروں اور اُن کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خیالات و کیفیات کا اِظہار نہیں کرپاتے تو بغیر کسی خوف کے بذریعہ ای میل مجھ سے اِظہار کریں۔
وقوعہ
آسیب اور پولیس انسپیکٹر
میرا نام یوسف بٹ ہے۔ یہ واقعہ میرے ساتھ اُس وقت پیش آیا جب مجھے پولیس ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت کرتے ہوئے ابھی دس سال ہوئے تھے۔ آپ سب کی طرح مجھے بھی معاشرے سے کئی مافوق الفطرت واقعات سننے کو ملتے تھے۔ کبھی کسی پر جن آگیا، کسی پر بھوت چمڑ گیا، کسی کا سامنا چڑیل سے ہو گیا وغیرہ وغیرہ لیکن کبھ کسی واقعے کو میں نے دل سے تسلیم نہیں کیا۔ دورانِ ملازمت بھی مجھے کئی ایسے مقامات پر فرائض انجام دینا پڑے جہاں ایک عام آدمی رات کے وقت قیام کرتا ہوا گھبرا جائے۔ لیکن مجھے نہ تو ایسے مقامات پر کبھ خوف محسوس ہوا اور نہ ہی کبھی کوئی واقعہ میرے ساتھ رُونما ہوا تھا۔
میری بہن کی شادی تھی۔ میں نے اس سلسلے میں ملازمت سے چند دن کی چھٹی لے رکھی تھی۔ میں اُن دنوں سامان لانے لے جانے اور گھر کے دیگر کاموں میں اِنتہائی مشغول تھا۔ ایک دن دوپہر کے وقت میں بائک پر گھر جا رہا تھا۔ موسم اَبر آلود تھا اور ہلکی ہلکی بوندا باندی ابھی شروع ہوئی تھی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے بارش تیز ہوتی چلی گئی۔ میں چند منٹ میں گھر پہنچنے ہی والا تھا کہ میری بائک بند ہو گئی۔ پہلے تو میں نے بائک اِسٹارٹ کی خود ہی کوشش کی لیکن ناکامی کے بعد تھوڑے ہی فاصلے پر واقع مکینک کی دوکان پر میں پیدل پیدل بائک لے کر پہنچا۔ لیکن مکینک اپنی دُکان کا شٹر گِرا کر کہیں گیا ہوا تھا۔ شاید موسم کا لطف لینے دوستوں کے ساتھ اِدھر اُدھر نکل گیا ہو۔ مکینک کے برابر چائے کا ہوٹل تھا۔ چونکہ میں گھر سے زیادہ دُور نہیں تھا لو گ کم و بیش مجھ سے واقف تھے۔ ہوٹل والا بھی جانتا تھا کہ میں پولیس اِنسپیکٹر ہوں۔ میں بائک لاک کرکے ہوٹل والے کو چابی دے دی۔ اور کہا کہ مکینک آ جائے تو اُسے دے دینا۔ کہنا کہ اِسے ٹھیک کردے میں شام میں لے جاؤں گا۔
میں نے سوچا کہ میں بھی موسم کا لطف لیتے ہوئے پیدل پیدل گھر کی طرف چلتا ہوں۔ گھر جاتے ہوئے راستے میں ایک شارٹ کٹ تھا۔ جو قبرستان سے نکلتا تھا۔ عام طور پر لوگ اِس راستے کو اِختیار نہیں کرتے تھے۔ میں بھی معروف سڑک سے ہی آنا جانا کیا کرتا تھا۔ لیکن مجھے قبرساتن سے گزرنے میں کوئی خوف محسوس نہیں ہوتا تھا۔ چلتے چلتے میں نے فیصلہ کیا چونکہ میں پیدل گھر جا رہا ہوں تو کیوں نہ شارٹ کٹ اِختیار کر لوں۔ اور بارش میں قبرستان میں قبروں کی کیا صورتِ حال ہے۔ وہ بھی نطر آ جائے گی۔ اللہ جنت نصیب کرے میرے اَبّا جان مرحوم کی قبر بھی اِسی قبرستان میں ہے۔ بارش ہلکی ہلکی ہو رہی تھی۔ دوپہر ڈھائی تین بجے کا وقت تھا۔ میں پیدل چلتے چلتے قبرستان کے درمیان تک آ گیا تھا۔ بہت سی قبریں بارش سے مُتاثر ہو رہی تھیں۔ میں یہ سب مناظر دیکھتے دیکھتے اَبّا جان کی قبر پر پہنچ گیا۔ دُور دُور تک سنّا ٹا چھایا ہوا تھا۔ موسم کی وجہ سے کوئی بھی فرد مجھے قبرستان میں دکھائی نہیں دیا۔ میں اَبّا جان کی رُوح اور تمام اہلِ قبور کیلئے فاتحہ کی اور آگے چل دیا۔
میری نظر ایک قبر کے سرھانے درخت کے نیچے کھڑے سفید رنگ کے بہت ہی خوبصورت بکری کے بچے پر پڑی۔ بکری کا بچہ بارش میں بھیگنے کی وجہ سے سہمے ہوئے کھڑا تھا۔ میں بہت احتیاط سے قبریں پھلانگتا ہوا بکری کے بچے کے پاس جا پہنچا۔ میں اچھی طرح چاروں اطراف نظر دوڑائی۔ مجھے کوئی فرد یا کوئی بکری نظر نہیں آئی۔ میں نے بکری کے بچے کو گود میں آٹھایا اور گھر کی طرف چل دیا۔ میں یہ سوچتا ہوا جا رہا تھا کہ مسجد میں اعلان کروا دُونگا۔ اگر اِس کا مالک آ گیا تو اُسے دے دُونگا۔ نہیں تو میں اِس بکری کے بچے کو خود ہی پال لوں گا۔ قبرستان کی حدود ابھی چند فرلانگ دُور ہی تھی۔ کہ بکری کے بچے کی ٹانگیں لمبی ہوتے ہوتے زمین سے جا لگیں۔ اور میں بکری کے بچے کے ساتھ زمین سے اوپر اُٹھنے لگا۔ میں نے بکری کے بچے کو چھوڑا تو زمین پر آ گِرا۔ بکری کا بچہ مجھے شیطانی نظروں سے دیکھتے ہوئے مُسکرا رہا تھا۔ میں بہت کوشش کے باوجود حواس پر قابو نہ رکھ سکا۔ خیال آیا کہ آیت الکرسی پڑھ لوں۔ جبکہ آیت الکرسی پڑھنا میرا روز کا معمول ہے۔ لیکن مجھے یاد ہی نہیں آ رہا کہ آیت الکرسی شروع کہاں سے ہوتی ہے۔ اور بکری کے بچے کی طرف دیکھتے دیکھتے میرے حواس خوف سے معطل ہو گئے۔
کچھ دیر بعد اِمام صاحب تشریف لے آئے اور مجھے دیکھتے ہی اُنھوں نے کہا اِستغفراللہ اِس کے ساتھ تو آسیب ہے۔ امی پریشان ہو گئیں کہ اب کیا ہوگا۔ امام صاحب نے کہا کہ آپ گھبرائیں نہیں اِسے گھر لے جائیں۔ میں گھر آ کر آسیب کا علاج کرتا ہوں۔ جلد ہی ٹھیک ہو جائے گا۔ انشاء اللہ تمھارا بیٹا ظہر کی نماز میرے ساتھ پڑھے گا۔ امی کو امام صاحب نے بہن بنایا ہوا تھا۔ امی امام صاحب کے رُوحانی علاج کے قصے اکثر سنایا کرتی تھیں۔ مگر میں کبھی یقین نہیں کرتا تھا۔ لیکن اُن کے علاج سے میں جس طرح آناً فاناً ٹھیک ہوا۔ مجھے یہ اندازہ ہو گیا کہ اگر رات کو ہی میں امی کو سارا واقعہ بتا دیتا۔ تو رات کو ہی امام صاحب علاج کر دیتے مجھے رات اس طرح تکلیف میں نہ گزارنا پڑتی۔