فرشتے، جّن اور انسان (اقتباس تصنیفِ مرشدِ کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی "احسان و تصوف")



بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

تمام سبسکرائبرز اور نئے آنے والے دوستوں کو خوش آمدید 

ماورائی علوم اور روحانی دنیا میں دلچسپی رکھنے والوں کیلئے یہ ویڈیو انتہائی دلچسپ معلومات لئے ہوئے ہے۔ پم اس میں کائنات کی مرکزی مخلوق فرشتوں ، جنّات اور انسانوں کے تقابلی جائزے پر مشتمل تعارفی مطالعہ کریں گے۔ انشاء اللہ اگلی ویڈیو میں آپکے کامنٹس کے مطابق اسی موضوع کو لیکر مزید آگے بڑھیں گے

اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے، کہ اُس نے ہمیں مرشدِ کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی روحانی نسبت عطا کی، اللہ تعالی سے دعا ہے مرشدِ کریم کا سایہ صحت و تندرستی کے ساتھ تا دیر ہمارے سروں پر قائم رہے آمین 

فرشتے

فرشتے غیر مکلف اور قدرت کے ہاتھ ہیں۔ کائناتی اُمور فرشتوں کے ذریعے تکمیل کو پہنچتے ہیں، ہر فرد کے افعال و اشغال میں بیس ہزار فرشتوں کا کردار ہوتا ہے۔ یعنی ایک آدمی کی زندگی رواں دواں رکھنے کیلئے بیس ہزار فرشتے کام کرتے ہیں

فرشتوں کی آنکھیں مشروم کی طرح گول، ناک گل دستہ کی طرح ۔ چہرہ چودھویں کے چاند کی مانند ہے

فرشتوں کا جسم نور یعنی نورانی لہروں پر مشتمل ہے۔ ان کی عمومی پرواز ایک سو اسی ہزار میل فی گھنٹہ ہے

فرشتوں کی کئی قسمیں اور گروہ ہیں۔  ﷲ تعالیٰ کی طرف سے فر شتوں کو جو صلاحیتیں عطا ہوئی ہیں وہ فرشتوں کے پروں سے ظاہر ہوتی ہیں۔ فرشتوں کے پر صلا حیتوں اور صفات کے مطابق چھوٹے بڑے ہوتے ہیں۔ پروں کی تعداد میں بھی فر ق ہو تا ہے

جس طرح مور کے پروں پر خوبصورت نقش و نگا ر ہوتے ہیں، اسی طرح فرشتوں کے پروں پر بھی لاشمار نقوش ہوتے ہیں۔ ہر نقش ایک صلا حیت ہے۔ فر شتوں کے پروں میں سے نور کے جھماکے ہوتے ہیں

جنات اور انسان

جنّات اور انسان کو مکلف کی حثیت سے کائنات میں نمایاں مقام حاصل ہے، کائنات کی تمام مخلوقات قدرت کے لگے بندھے قوانین کی پیروی کرتی ہیں، جبکہ یہ دونوں نفسانی خواہشات کے ذریعے زندگی بسر کرتے ہیں۔ اسی لئے جنّات اور انسان کا ایک ایک فرد اپنے کئے پر اللہ کے حضور جواب دہ بھی ہے

حضرت عبداﷲ بن عمر بن العاص ؓ فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے جنات کو حضرت آدم ؑ سے کئی ہزار سال قبل پیدا کیا


جس طرح آج انسان اپنی نسل کا شجرہ ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام سے ملاتے ہیں بالکل یہی کیفیت قوم اجنہّ کی ہے ان کا سلسلہ توالد و تناسل ابوالجن طارہ نوس سے ملتا ہے

جس طرح عورت و مرد انسانوں میں پیدا ہوتے ہیں اسی طرح قوم اجنہّ میں بھی پیدا ہو تے ہیں

 جنّات کی آنکھیں بادام کی طرح ہیں۔ آنکھ کی پتلی میں گہرے رنگ کے ڈورے، ناک ستواں دبا ہوا یا ناک کی نوک غائب اور چہرہ بیضوی ہے

جنّات کا جسم نار یعنی اکہری برقی رو کا ہے۔ اسی لئے مادّی آنکھ اسے دیکھنے سے قاصر رہتی ہے۔ جبکہ انسانی جسم خاک یعنی دوہری برقی رو پر مشتمل ہے

انسان ایک گھنٹے میں تین میل پیدل مسافت طے کرتا ہے۔ جبکہ جنّات کی رفتار ستائیس میل فی گھنٹہ ہے

انسانی دنیا میں ماں کے بطن سے بچہ نو ماہ میں پیدا ہوتا ہے اور جنات کی دنیا میں ماں کے بطن سے بچہ انسانی اعداد وشمار کے مطابق نو سال میں پیدا ہوتا ہے۔ اس ہی اندازہ کے مطابق جنات کی عمریں ہوتی ہیں

حضورصلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم سے لوگوں نے جنّات کی غذا کے بارے میں دریافت کیا

آپ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ جنات گوشت کے بجائے ہڈی شوق سے کھاتے ہیں ان کے لئے ہڈی گوشت کے قائم مقام ہے اورجانوروں کا فضلہ لیدھ اور مینگنی وغیرہ جنات کے جانوروں کا چارا ہے ان کے لئے فضلہ سبز گھاس بن جاتی ہے

ایک مرتبہ جنّات کا قاصد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ ﷺ کو قرآن سنایا۔ پھر انھوں نے کھانے کے بارے میں پوچھا آپ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ذبیحہ ہڈی تمھارے لئے پرُ گوشت کردی جائے گی

چونکہ جنات اور انسان مکلف مخلوق ہیں۔ اس لئے یہ دونوں روحانی علوم بھی سیکھ سکتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک کی سورہ الرحمٰن آیت تینتیس میں دونوں کو مخاطب فرمایا ہے

ترجمہ

’’اے گروہ جنات اور گروہ انسان! تم زمین اور آسمان کے کناروں سے نکل کر دکھاؤ، تم نہیں نکل سکتے مگر سلطان سے۔‘‘

سلطان کا مطلب روحانی صلاحیتیں ہیں۔ اگر کوئی انسان یا جن روحانی صلاحیت کو بیدار اور متحرک کرلے تو آسمان اور زمین کے کناروں سے نکل کر غیب کی دنیا کا مشاہدہ کرسکتا ہے

انسان کے اوپر کثافت کا پردہ زیادہ جبکہ جنّات پر کثافت کا پردہ کم ہے

دونوں مخلوقات کثافت کے پردے اور تاریکی کے خول سے خود کو آزاد کردیں، تووہ اپنے اندر اﷲ کا نور دیکھ لیتی ہیں

قرآن حکیم سورہ نور میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے

’’ ﷲ آسمانوں اور زمین کا نورہے اس نور کی مثال ایسی ہے جیسے طاق میں چراغ، چراغ شیشے کی قندیل میں ہے۔ قندیل گویا کہ موتی کی طرح چمکتا ہوا ستارہ ہے۔ زیتون کے مبارک درخت سے روشن کیا جاتا ہے۔ نہ شرقی ہے نہ غربی ہے قریب ہے کہ روشن ہوجائے اگرچہ آگ نے اسے نہ چھوا ہو، نور علیٰ نورہے۔ اﷲ جسے چاہتا ہے اپنے نور کو دکھا دیتا ہے۔ اور ﷲ لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے اور ﷲ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔‘‘

روحانی مسافر (سالک )جب راستہ کے نشیب و فراز سے گزرتا ہے تو اس کے شعور میں ایک جھماکا ہوتا ہے۔ اور اس کی باطنی آنکھ کھل جاتی ہے

تصوف رہنمائی کرتا ہے کہ اﷲ سے دوستی کی شرط یہ ہے کہ بندہ وہ کام کرے جو اﷲ کوپسند ہے۔ اچھا انسان وہی کام کرکے خوش ہوتا ہے جس سے اﷲ خوش ہوتا ہے۔




Post a Comment

If you have any question let me know

Previous Post Next Post