اللہ
خالقِ کائنات نے اپنا تعارف اِسم " اللہ " سے پیش کیا۔
جب کچھ نہ تھا تو " اللہ " تھا۔ گر کچھ نہ ہوگا مگر " اللہ " ہوگا۔
جب کچھ نہ تھا تو " اللہ " تھا۔ گر کچھ نہ ہوگا مگر " اللہ " ہوگا۔
آدمی کو زندہ و قائم رہنے کیلئے ہر سطح پر قوت درکار رہتی ہے۔ آدمی کیلئے قوت ہی رَب، قوت ہی اِلٰہ ہے۔
اللہ کے علاوہ کائنات میں کوئی قوت نہیں۔
اللہ کی قوت یہاں بِالواسطہٗ اَرض مُظاہرے میں آتی ہے۔ لہذا آدمی کسی نہ کسی تناظر میں اُن واسطوں کو غیر اعلانیہ رَب و اِلٰہ گمان کر لیتا ہے۔ یہیں سے گمراہی کی داغ بیل پڑتی ہے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے آدمی کا شعور بے شمار مَصنوعی اِلٰہ کے ساتھ مَربوط ہو جاتا ہے۔
اللہ اپنے منتخب بندوں کے ذریعے آدمی کو گمراہی سے نکالنے کیلئے " لااِلٰہ اِلااللہ " کا پیغام مُسلسل بھیجتا رہا۔ یہاں تک کہ مُنتخب بندوں کی کم و بیش تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہو گئی۔
اللہ کے منتخب بندوں کی تعداد کی نِسبت سے اللہ کا پیغام " لااِلٰہ اِلااللہ " کی سوا لاکھ بار زبانی تکرار نِسبتِ شفاء رنگ و نُور میں پہلا معمول ہے۔
کائناتی اِبتدا نُور سے ہوئی۔ ہر شئے نُوری تنزل کی مُنفرد صورت ہے۔ ہمارا ایمان ہے اللہ کے محبوب ﷺ نُورِ اول ہیں۔
نُورِ اولﷺ سے باطنی قربت کیلئے اللہ کے حضور روزانہ ایک سو چار بار درخواست درودِ نُور پیش کرنا۔ اور ہر جمعرات یا کم از کم نوچندی جمعرات سونے سے پہلے بِلا تعداد ایک گھنٹہ درخواست درودِ نُور کی تکرار کرنا، نِسبتِ شفاء رنگ و نُور میں دوسرا معمول ہے۔
اِسمِ پکار آدمی کی نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی و رُوحانی علامت ہے۔ آدمی روزِ قیامت تک اِسی نام سے پکارا جائے گا۔ اسمِ پکار کے اعداد آدمی کیلئے معرفت کا درجہ رکھتے ہیں۔ اسمِ پکار کے اعداد کے مطابق روزانہ اَللہُ کا اِنفرادی ذِکر نِسبتِ شفاء رنگ و نُور میں تیسرا معمول ہے۔
تینوں عملیات کے معمول بننے کی تفصیل و آداب ہم پہلے بیان کر چکے ہیں۔ جس کا لنک ذیل میں موجود ہے۔
کائنات ابتدا سے انتہا تک مُسلسل حرکت ہے۔ حرکت ابتدا میں راس ہے۔ جبکہ وسط میں دائر اور اِنتہا میں دائرہ ہے۔
جس کی تحریری علامت:۔ راس " ا " ۔ دائر " ل " ۔ اور دائرہ " ہ " ہے۔
اِن تینوں بنیادی علامت کا ظہور اِسمِ ذات اللہ سے ہوتا ہے۔ حروفِ تہجی اُردو ہوں، انگلش ہوں یا کوئی اور، اِنہی تین بنیادی علامات کی مختلف تراکیب ہیں۔
اَللہُ کے تلفظ میں تینوں علامات الگ الگ ادا ہوتی ہیں۔ یعنی تینوں علامات الگ الگ بولتی ہیں۔
اَلْ:۔ میں لام خاموش اور راس حرکت زبر کے ساتھ " ا " میں بولتی ہے۔
لٰ:۔ میں دائر حرکت کھڑے زبر کے ساتھ " ل " میں بولتی ہے۔
ہُ:۔ میں دائرہ حرکت پیش کے ساتھ " ہ " میں بولتی ہے۔
ذِکر کی لطافت سے ذاکر اَرضی وجود سے بلند ہوتا جاتا ہے۔ بَسا اوقات بلندی سے اپنے اَرضی وجود پر نظر پڑ جاتی ہے۔ اپنے ہی مادّی وجود کو اللہ کے ذِکر میں مشغول دیکھکر حضرت بابا بھُلے شاہ ؒ فرماتے ہیں۔
" میں نئیں او آپ اے۔۔۔ اپنی آپ کرے دِل جوئی "
راس:۔ اَلْ اِس حرکت میں کائناتی مرحلہٗ نُوری ہے
دائر:۔ لٰ اِس حرکت میں کائناتی مرحلہٗ ناری ہے
دائرہ:۔ ہُ اِس حرکت میں کائناتی مرحلہٗ فِی الاَرضی ہے
ذِکر میں ایک بار اَللہُ کی ادائیگی سے آدمی کائنات کی ابتدا و انتہا یعنی نُور، نار اور فِی الاَرض کا ایک چکر لگا لیتا ہے۔ اَللہُ کے ذِکر سے نہ صرف رُوحانی قوت پیدا ہوتی ہے۔ بلکہ بتدریج کائناتی اِسرار و رَموز بھی مُنکشف ہونے لگتے ہیں۔
Tags:
Allahu ki rohani tojeh