نظریہ
اللہ تعالیٰ کا اَمر موجبِ کائنات ہے۔ یہ وسیع و عریض کائنات صفاتِ اِلٰہیہ سے رواں دواں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا نُور ہر شئے پر محیط ہے۔ یعنی ہر شئے اللہ کے نُورانی حِصار کے اندر اپنی اِنفرادی حیثیت میں جلوہ نُماء ہے۔
یہ حیثیت اور ہمارا اِختیار سب اللہ کی عطا ہے۔ لیکن چونکہ ہم مادّی نظام کے تحت پیدا ہوتے ہیں۔ شعوری نشونُماء اِسی نظام میں ہونے سے ہمارا تشخص بھی مادّی رہتا ہے۔ اِس لیئے ہمارے پیشِ نظر صرف مادّہ اور مادّے سے جُڑا مادّی نظام ہے۔
سورۃ الشعراء آیت 69 تا 82 ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
ترجمہ:۔ حافظ نذر احمد
اور آپ ﷺ انھیں ابراھیمؑ کا واقعہ پڑھکر (سنائیں) جب انھوں نے اپنے باپ کو کہا اور اپنی قوم کو تم کس کی پرستش کرتے ہو؟ انھوں نے کہا ہم بتوں کی پرستش کرتے ہیں، پس ہم ان کے پاس جمے بیٹھے رہتے ہیں۔ اس نے کہا کیا وہ تمھاری سنتے ہیں جب تم پکارتے ہو؟ یا وہ تمھیں نفع پہنچاتے ہیں؟ یا نقصان پہنچا سکتے ہیں؟ وہ بولے (نہیں تو)۔ بلکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طرح کرتے پایا ہے۔ ابراھیمؑ نے کہا پس کیا تم نے دیکھا (غوربھی کیا) تم کس کی پرستش کرتے تھے؟ اور تمھارے پہلے باپ دادا؟ تو بیشک وہ میرے دشمن ہیں مگر (میں عبادت کرتا ہوں) سارے جہانوں کے رب کی۔ وہ جس نے مجھے پیدا کیا پس وہی مجھے راہ دکھاتا ہے۔ اور وہی جو مجھے کھلاتا ہے اور وہی مجھے پلاتا ہے۔ اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ مجھے شفاء دیتا ہے۔ اور وہ جو مجھے موت (سے ہمکنار) کرے گا، پھر مجھے زندہ کرے گا۔ اور وہ جس سے میں اُمید رکھتا ہوں کہ مجھے بدلہ کے دن میری خطائیں بخش دے گا۔
ایمان بالغیب واضح کرتا ہے کہ شئے کو بنانے والا، سنوارنے والا، نشونُماء کرنے والا، شفاء دینے والا، پالنے والا اور قائم رکھنے والا اللہ وَحدہُ لاشریک ہے۔ ایمان بالغیب سے مادّے کے ساتھ ماوراءِ مادّہ اَنواروتجلیات کا اِدراک ہونے لگتا ہے۔ یہ اِدراک ہی رُوحانی تشخص بیدار کرتا ہے۔
اِدراک گہرا ہوکر رُوحانی تشخص کی نشونُما کا باعث بنتا ہے۔ اور شعور مادّے کے ساتھ اَنوار و تجلیات کو محسوس کرنے لگتا ہے۔
رسولِ اَمین خاتم النبین ﷺ کی نسبت سے ہمیں اللہ کا اِدراک اور رُوحانی تشخص نصیب ہوا ہے۔ رُوحانی تشخص کی نشونُماء اور مضبوطی کیلئے ذکرِ اِلہٰی جیسے اِقدامات ضروری ہیں۔
اللہ کا ذکر اَنواروتجلیات کا احساس اُجاگر کرتا ہے۔ اللہ کے ذکر سے نفسانی کثافتیں دُور ہوتی ہیں۔ ذکرِ اِلہٰی جسمِ لطیف کو رنگ و نُور سے مُزیّن کرتا ہے۔ شفاءیابی کے حصول کیلئے مثبت گمان کے ساتھ جب اللہ کو یاد کرتے ہوئے کوششیں کی جاتی ہیں۔ تو اللہ شفاءیابی سے ہمکنار کرتا ہے۔
حدیث نبویﷺ ہے۔
میں اپنے بندے کیساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں جیسا وہ مجھ سے گمان رکھتا ہے۔میں اسکے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے، اگر وہ مجھے خلوت میں یاد کرے تو میں اسے خلوت میں یاد کرتا ہوں ،جلوت میں کرے تو میں اس سے بہتر مجلس میں اسکا ذکر کرتا ہوں ،وہ میری جانب ایک بالشت آگے بڑھے تو میں ایک گز بڑھتا ہوں ،وہ میرے پاس چل کر آئے تو میں دوڑ کر اسکی جانب جاتا ہوں (صحیح بخاری 6856،صحیح مسلم 4834)