نماز اور نُورانی دُنیا




تصور ذہنی یا پہلی حرکت

پہلی حرکت سے بااِختیار ، ذِمہ دار اور جواب دہ زندگی یعنی حیاتِ آدم کا جنت میں آغاز ہوا ۔ اِختیار سے خُودی بیدار ہوئی جو تکرار سے نشونُماء پا رہی ہے ۔


حَق سے مزید گُمان اَخذ ہوتا ہے کہ جنت کی زندگی میں اِرادہ سے ہی مُظاہرہ ہوجاتا تھا۔ پھر نُور و ظُلمت کی کشمکش سے نُورانی جسم سے مادے کا ظہور ہوا ، کائنات نزولی حرکت میں وسیع ہوتی گئی۔ اِس توسیعی تنزلی کے نتیجے میں نُورانی دُنیا نے مادی رُوپ دَھار لیا۔


کائنات کے توسیعی عمل سے اِرادے سے مَظہر بننے کا عمل بھی وَسیع ہو گیا ۔ لِہذا اَب اِرادے کے ظہور کیلئے تصور یا پہلی حرکت کے ساتھ ساتھ مزید مادی حرکات مثلاََ زُبانی حرکت ، قلمی حرکت اور دیگر جِسمانی حرکات بھی مَشروط ہو گئیں ۔



پہلی حرکت اِرادے کے ظہور کیلئے لازم ہے۔ اِس پہلی حرکت سے بننے والی اِرتعاش ہی مَزید حرکات کیساتھ تقویت پا کر اِرادے کے ظہور میں مرکزی کردار ادا کرتی ہے ۔


اِرادے سے ظہور تک تمام مَراحل کامیابی کے ساتھ کِس طرح طے ہوسکتے ہیں؟
یہ طریقہ نماز سے سِیکھا جا سکتا ہے۔ زندگی کے مادی رُوپ سے نُورانی رُخ کا اِدراک اور مادی دُنیا سے نُورانی دُنیا تک رَسائی نماز سے ہی مُمکِن ہے۔


نمازی قِبلہ رُخ اوقات و رکعات کیساتھ اِرادہ کرتا ہے۔ کہ وہ اللہ کے حُضُور حاضر ہے۔ یہ تصور یا پہلی حرکت ہے۔ پھر زبانی حرکت یعنی اللہ اکبر کہہ کر اُسکی کِبریائی کا اِقرار کرنا۔ اور جسمانی حرکت یعنی ہاتھ اُٹھا کر خُود کو اللہ کے حوالے کردینا۔ شعور پر ماحول کی گرفت کمزور کر دیتا ہے۔ اور باطن میں اِرادہ تقویت پانے لگتا ہے۔


پھرجسمانی حرکت یعنی اَدب سے ہاتھ باندھنا۔ اور زبانی حرکت یعنی اللہ کی ثنائی بیان کرنا۔ حُضُوری کیفیات بیدار کرتا ہے۔ یعنی نماز کا ہَر رُکن زبانی و جسمانی حرکات سے (اللہ کے حُضُور حاضر ہونے کے) اِرادے کو ظہور میں لانے کیلئے اِرتعاش پیدا کرتا ہے۔ 


اِرتعاش وہ کشِش ہے جو اِرادے کو باطن سے ظاہر میں کھینچ لاتی ہے۔ پھر بِاالآخِر مُسلسل تکرار، اللہ کے فضل و کرم اور رسول اللہ ﷺ کی رُوحانی شَفقت سے حُضُوریٗ قلب کی راہیں روشن ہو جاتی ہیں۔ اور نمازی رنگ سے نُور میں داخل ہو جاتا ہے۔



Previous Post Next Post