قُوتِ اِرادی


نِظامِ حیات اللہ کے طے کردہ اُصول و ضوابِط پر گامزن ہے۔ صاحبِ علم پیشگوئیاں بھی مُسَلِمہ اُصولوں پر کرتے ہیں۔ عام فرد بھی بَسااوقات ہونے والی بات جان لیتا ہے۔ ہونی محسوس ہو جاتی ہے۔ ہونی کے نقش و نگار باطن میں دکھائی دے جاتے ہیں۔
اِسی بات کو دوسرے زاوئیے سے یُوں بھی کہا جاسکتا ہے۔ کہ نقش ونگار کا باطن میں رُونما ہونا، اُنکے ظاہر ہونے کے اِمکانات روشن کرتا ہے۔ اِرادے کی تکمیل کیلئے لازم ہے کہ دورانِ عمل اِرادے کی تصویر باطن میں روشن ہو۔
باطن میں اِرادہ خدوخال رکھتا ہے۔ خدوخال واضح نہ ہوں تو اِرادے میں کمزوری رہتی ہے۔ اِرادہ رُوح کی مانِند ہے۔ جِس کے جِسم کی تیاری بذریعہ اَعمال باالترتیب نُوری، ناری، خاکی ہر سطح پر ہوتی ہے۔ تب جاکر اِرادہ مَظہر بَنتا ہے۔ پھر اِرادہ کرنے والا رَب کا شُکر گُزار ہوتا ہے، یا تَکبُر میں آکر سَرکَشی کرتا ہے۔
جِن واِنس اِرادوں میں کامیاب بھی ہوتے ہیں، ناکام بھی ہوتے ہیں۔ روزمَرہ کا مُشاہدہ ہے کہ صرف مادی یا خاکی کوششیں اِرادے کو ظہور میں لے آتی ہیں۔ اِسی طرح صرف نُورانی اَعمال سے بھی اِرادے کی تکمیل کے اَسباب اللہ بَنا دیتا ہے۔
بعض اوقات نُوری ناری خاکی تمام کاوشیں مل کر بھی اِرادے کے ظہور میں ناکام رہتی ہیں۔
یہ صورتحال ایک طرف اللہ کے حقیقی حاکم ہونے کی دَلیل پیش کرتی ہے۔ دوسری طرف خلیفہ کو تَصَرُف کیلئے نِظامِ حیات میں اَزسرِنو غوروفِکر کی دعوت دیتی ہے۔

Post a Comment

If you have any question let me know

Previous Post Next Post