رُوح + ذہن + جسم = اِنسان
ذہن مَنشاء کے مُطابق جسم کو فَعال رکھتا ہے۔ ذہن کو پہلے پہل توجہ رکھنا پڑتی ہے۔ جب بارہا کسی فعل کو دُھرا لیا جاتا ہے۔ تو پھر واجبی سی توجہ ہی جسمانی اَفعال کیلئے کافی ہوتی ہے۔ ذہن اِس عادت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے دورانِ فعل کسی اور خیال میں مَصروف ہو جاتا ہے۔ اَعمال و اَفعال کے حقیقی نتائج کے حصول میں سب سے بڑی رُکاوٹ غیر فِعلی ذہنی مَصروفیت ہے
جسم مرئی شئے ہے۔ جسم کو آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔ ذہن غیر مرئی ہے۔ ہم بیدار ہوں یا نیند میں یہ ہمہ وقت مَصروف رہتا ہے۔ لیکن جسمانی تناسب سے ذہن زیادہ سِہل پسند واقع ہوا ہے۔ ذہنی سِہل پسندی یہ ہے کہ وہ اپنے ہی علم میں مَصروف رہنا چاہتا ہے۔ ذہن کسی نئی صورتحال کا سامنا کرنے سے گُریز کرتا ہے۔
آپ ایک لگے بندھے راستے سے روزانہ کام پر جاتے ہیں۔ اگر کسی وجہ سے راستہ بدلنا پڑ جائے تو ذہن پر گِراں گُزر جاتا ہے۔ اِسی طرح ذہن اپنے حلقہءِ احباب میں خوش رہتا ہے۔ کسی نئے فرد کی آمد یا موجودگی ذہن پر گِراں گزرتی ہے۔ ایسا ذہن دورانِ نماز مخلوق کو چھوڑ کر خالق کی طرف کیسے مُتوجہ ہو سکتا ہے۔
جو کُچھ سُنا، دیکھا، پڑھا اور جن تجربات سے گزر کر ہم نے آج تک جو نتائج اَخذ کئے، وہ سب ہمارے ذہن میں ہیں۔ یہی ہمارا شعور ہے۔ شعور آزاد ہے۔ یہ کسی کے آگے سِر نِگوں نہیں ہوتا۔ بیٹی ماں کو کچھ نہیں سمجھتی، بیٹا باپ کو خاطر میں نہیں لاتا۔ البتہ شعور مَکاری میں یا بہتر مُفاد میں صرف وقتی طور پر کسی کی نصیحت قبول کرتا ہے۔
خُود کو الگ کرتے ہوئے اِس شعوری حالت کو حضرت بابا بُھلے شاہ ؒ یُوں فرماتے ہیں
اول آخر آپ نُوں جاناں نہ کوئی دُوجا ہور پَچھانہ
میتھوں ہور نہ کوئی سِیانا بُلہا او کھڑا اے کون
بُلیہا کی جاناں میں کون
نماز میں زبان سے ادا ہونے والے ہر کلمے کے معنی پر مکمل توجہ اللہ کی طرف مَبزول کرتی ہے۔ تاکہ اللہ کے حضور حاضری کے اِرادے میں کامیابی حاصل ہو سکے۔ اللہ کی بڑائی اور غلبہ تسلیم کرکے ہراہ راست نمازی اللہ سے مُخاطب ہو جاتا ہے۔
سُبْحَانَکَ اللّٰهُمَّ۔ اے اللہ تو پاک ہے۔
وَبِحَمْدِکَ۔ اور تو حمد کے ساتھ ہے۔
وَتَبَارَکَ اسْمُکَ۔ اور تُو و تیرا نام برکت والا ہے
وَتَعَالٰی جَدُّکَ۔ اور تیری شان و جَد عالٰی ہے
وَلَا اِلٰهَ غَيْرُکَ۔ اور تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں
أَعُوْذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ
میں پناہ میں آتا ہوں اللہ کے ساتھ شیطان رجیم سے
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اللہ کے نام کے ساتھ جو رحمٰن و رحیم ہے
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَO
تمام حمد اللہ کیلئے ہیں جو رب ہے عالمین کا
الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِO
بہت مہربان ، مُستقل رحم کرنے والا ہے
مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِO
تُومالک ہے یومِ الدین کا
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُO
ہم تیری ہی عبادت کرتے اور تجھ سے اِستعانت چاہتے ہیں
اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَO
ہمیں ھدایت دے صراطِ مُستقیم کی
صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْO
اُن لوگوں کا صِراط جن پر تُو نے اِنعام فرمایا
غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَO
اُن لوگوں کا نہیں جن پر غضب کیا گیا اور نہ گُمراہوں کا
پھر نمازی قرانِ حکیم کی مزید تلاوت کرتا ہے۔ اور اللہ کی بڑائی بیان کرتے ہوئے جُھک جاتا ہے۔ اور اپنے پالنے والے کی طرف مُتوجہ ہو کر تعظیم بیان کرتا ہے۔
سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِيْمِ
پاک ہے میرا رب عظمت والا ہے
سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَهُ
سُن لی اللہ نے جو حمد بندے نے کی
رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ
اے ہمارے رب البتہ حمد تیرے ہی لئے ہے
پھر نمازی اللہ کی بڑائی بیان کرتے ہوئے سجدہ ریز ہوکر رب کی صفتِ اَعلیٰ بیان کرتا ہے۔
سُبْحَانَ رَبِّیَ الْأَعْلَی
پاک ہے میرا رب اَعلیٰ ہے
اِسی طرح نماز کی ہر حرکت اور زبان سے ادا ہونے والے ہر کلمے کے معنی و مَفہوم پر توجہ کے ساتھ نماز ادا کرتے ہوئے مرتبہ احسان میں نمازی حالتِ قَعدہ میں پہنچ جاتا ہے۔ اور پُر سکون نشست میں بیٹھ کر اللہ کے حضور راز و نیاز کرتا ہے۔ اللہ کے حضور حاضری میں مزید قُربت حاصل کرنے کیلئے نماز کی ذہنی، جسمانی اور زبانی حرکات کا جائزہ لے کر توجہ کے اِرتکاز کو بہتر بنانا اللہ کی طرف پیش قدمی ہے۔ اللہ اپنے بندوں کے ساتھ رَؤفُ الرحیم ہے۔ ہم ایک قدم بڑھائیں گے اللہ ہماری طرف دس قدم آئے گا۔