ماخذِ تفکر (تیسری نشست)

باطن ، صدر قلب فواد شعور لاشعور



تین باطنی پہلو

صدر
قلب
فواد

صدر

صدر بمعنی سینہ ہے۔ صدر کے معنی سامنے کے بھی ہیں۔ یعنی صدر سامنے والا حصہ ہے اور ہر شئے کا سامنا کرتا ہے۔ صدر ایک طرف قلب سے مُنسلک اور دوسری طرف حواسِ خمسہ کے ذریعے دُنیا سے مَربوط ہے

ہر فرد صدر میں تنگی یا کُشادگی محسوس کرتا ہے۔ خُوشی کی اطلاع پر سینہ چوڑا ہو جاتا ہے۔ خوف کے احساس سے سینے میں تنگی ہوتی ہے اور تمام صلاحیتیں ماند پڑ جاتی ہیں

قرانِ حکیم سورہ 26 آیت 12-13  کا ترجمہ
اُس (موسیٰؑ) نے کہا اے میرے رب بیشک میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے جھٹلائیں گے اور میرا سینہ تنگ ہوتا ہے اور میری زبان نہیں چلتی پس ہارونؑ کی طرف (بھی) پیغام بھیج

اِس آیتِ مُبارکہ میں صدری اَفعال کا علم موجود ہے۔ جب ڈر و خوف سے سینہ تنگ ہوتا ہے۔ تو حواسِ خمسہ اِسقدر کمزور پڑ جاتے ہیں کہ فرد کی زبان بھی فعال کردار ادا کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ یہاں تک کہ کسی طرح خوف کا مداوہ کیا جائے

نوٹ:۔  ہم اِس مضمون کے بعد مختلف اِقسام کے خوف کا مداوہ کرنے کیلئے ہدایات تخلیق کرنے اور ذِکر و اَذکار اور مُراقبے کے ذریعے اُنھیں قلب میں داخل کرنے کے آسان طریقوں پر بات کریں گے

دائمی تنگی اور کُشادگی
صدری اَحاطہ میں نُور و ظلمت کی بنیاد پر دائمی تنگی اور کُشادگی بھی ہوتی ہے

شرح یا کُشادگی
سلامتی کیلئے بیدار ہونا اور اپنے حقیقی تشخص کی تکمیل کیلئے مُسلسل اِصلاح کا مُصمَم اِرادہ کرلینا صدری کُشادگی کا باعث بنتا ہے۔ سینہ کُشادہ ہوتا جائے تو دُنیاوی خوبصورتی کے ساتھ  ساتھ بندہ قلب اور فواد تک رَسائی حاصل کرکے رَب سے سرکوشی بھی کرتا ہے

ضیق یا تنگی
علم کی طلب نہ رکھنا ، انسانی زندگی کو مِثلِ حیوانی سمجھکر نفسانی ضروریات و خواہشات میں لگے رہنا ، اپنے حقیقی تشخص سے غافل رہ کر تکمیل کیلئے بیدار نہ ہونا صدر میں دائمی تنگی پیدا کرتا ہے۔ دائمی تنگی سے زندگی اَجیرن ہو جاتی ہے۔ اور بندہ خُودکُشی کر بیٹھتا ہے
 
قرانِ حکیم سورہ 6 آیت 125 کا ترجمہ
پس اللہ جس کو ہدایت دینا چاہتا ہے۔ اسکا سینہ اسلام کیلئے کھُول دیتا ہے۔ اور جس کو چاہتا ہے اسے گمراہ کرے اُس کا سینہ تنگ بھینچا ہوا کر دیتا ہے گویا کہ وہ زور سے آسمان پر چڑھ رہا ہے     

(رواہ البیهقی فی شعب الإیمان، مشکوۃ/ص: ۴۴۶/کتاب الرقائق/الفصل الثالث)
شرح صدر کی علامات:۔  حدیث مذکور میں حضورﷺ کا ارشاد ہے

 إِنَّ النَّوُرَ إِذَا دَخَلَ الصَّدْرَ اِنْفَسَحَ  

جب نُور کسی کے سینے میں داخل ہو جاتا ہے۔ تو اُس کا سینہ کھُل جاتا ہے۔ کسی نے عرض کیا۔ یا رسول اللہﷺ اس کے پہچاننے کی کوئی خاص علامت بھی ہے؟ آپﷺ نے فرمایا تین علامتیں ہیں

اَلتَّجَافِیْ عَنْ دَارِ الْغُرُوْرِ
وَالإِنَابَۃُ إِلٰی دَارِالْخُلُوْدِ
وَ الْاِسْتِعْدَادُ لِلْمَوْتِ قَبْلَ نُزُوْلِہٖ

دھوکے کے گھر سے بچتا رہے
اور ہمیشگی کے گھر کی طرف رُجوع رہے
اور موت کے نزول سے پہلے موت کیلئے تیاری میں رہے

خیالات
پچاس ہزار سے زائد خیالات اور وَسوَسے روزانہ صدر تک پہنچتے ہیں۔ جن میں ایک بڑی تعداد روزانہ دھرائی جاتی ہے۔ توجہ کا ہدف اکثر منفی خیال یا وسوسے رہتے ہیں۔ وَسوسوں میں اُدھیڑ بُن کرنا اُنھیں حقیقت سے قریب کرتا ہے

قلب

قلب بمعنی تبدیلی یا پلٹ کے بھی مُستعمل ہے۔ قلب کا ایک معنی عکس بھی ہے۔ قلب آنے والی ہر اطلاع کو عکس کا رُوپ دیتا ہے۔ مثلاً حج کا تذکرہ ہو تو قلب میں بیت اللہ کا عکس بنتا ہے ، روضہٗ رسولﷺ بھی دکھائی دینے لگتا ہے۔ اور مذہبی جذبات طاری ہونے لگتے ہیں۔ یعنی عکس کے ساتھ ساتھ جذبات و شھوات بھی قلب کا خاصہ ہیں

ہمارے تمام اَفعال صدر کے زیرِاَثر اور صدری تحریکات قلب کی مرہونِ منت ہیں
مثلاً قلب میں خوفِ خُدا ہو تو بندے کے قول و فعل میں نظر آتا ہے
قلب میں کسی غم کے گہرے نقوش ہوں تو مزاج غمگین اور چِڑچِڑا رہتا ہے
قلب میں دنیا کا کوئی خوف بیٹھا ہے تو مزاج میں خوف کا احساس غالب رہتا ہے جو بندے کو آگے بڑھنے سے روکے رکھتا ہے
قلب میں کو منفی بات طبع ہو گئی ہے تو اُسکے منفی اَثرات پریشان رکھتے ہیں

جب اَفعال قلب کا مظہر ہیں تو قلب اَفعال پر مُتوجہ نہیں ہوتا۔ نتیجے میں ہمارے اَفعال قلب پر طبع نہیں ہو پاتے۔ ماسوائے اُن غیر روایتی اَفعال کے جو قلب کیلئے نئے یا عجیب ہوں ، غیر معمولی جذبات و شھوات سے مُزیّن ہوں یا پھر بار بار دھرائے جائیں

فواد

فواد بھی بمعنی قلب ہے۔ اور قلبی گہرائی کیلئے مُستعمل ہے۔ ماضی میں پیش آئے واقعات کے گہرے نقوش اور وراثت میں ملنے والی طباعتیں فواد میں محفوظ ہوتی ہیں

قرانِ حکیم سورہ 11 آیت 120 کا ترجمہ
اور ہر بات ہم تم سے رسولوں کے احوال کی بیان کرتے ہیں تاکہ اِس سے تمھارے فواد کو ثابت کر دیں اور تمھارے پاس آیا اس میں حق اور نصیحت و یاد دہانی مومنوں کیلئے

فواد وہ باطنی حصہ ہے جہاں بیرونی اطلاعات کے علاوہ براہ راست رُوحانی اُمور بھی نزول کرتے ہیں۔ فوادی تمثلات عالمِ رویّا میں بذریعہ خواب مُشاہدہ بنتے ہیں۔ اور فواد کے ذریعے مُبشرات اور سچے خواب بھی دکھائی دیتے ہیں

قرانِ حکیم سورہ 32 آیت 9 کا ترجمہ
پھر اس نے اس کے اعضاء کو ٹھیک کیا اور اس میں پھونکی اپنی (طرف سے) اپنی رُوح اور تمھارے لئے کان اور آنکھیں اور فواد بنائے تم بہت کم ہو جو شکر کرتے ہو


جذبہٗ شُکر

شُکر کے جذبات دو اَفعال سے تکمیل پاتے ہیں
1۔  ملنے والی شئے کو استعمال کرکے فیضیاب ہوا جائے
2۔  اعتراف کیا جائے کہ یہ شئے فلاں ہستی نے دی ہے

اللہ نے بیشمار نعمتیں عطا کی ہیں۔ نعمتوں میں غور و فکر کرکے اُن سے فیضیاب ہوا جائے۔ باالخصوص اِن تین نعمتوں سے جس کا ذِکر اللہ نے قصداً کیا کہ تم بہت کم شکر کرتے ہو۔ ہمیں اِن تین نعمتوں سے زیادہ سے زیادہ فیضیاب ہونا چاہئے اور اعتراف کرنا چاہئے کہ یہ نعمتیں ہمارے رَب اللہ نے عطا کی ہیں۔

 
      

Post a Comment

If you have any question let me know

Previous Post Next Post